Story of a newspaper reader (اخبار بسیاری)

اخبار بسیاری
شہزاد بسراء
طوطے کی طرح مخرو طی ناک ،موٹے شیشوں کی بڑے فریم والی عینک،بال قدرے کم، درمیانہ قد پیٹ اس قدربڑا کہ لگتا آدمی کو نہیں بلکہ پیٹ کو آدمی لگا ہوا ہے۔ شکل اور جسامت سے ایک نظر میں امجد اسلام امجد لگتے ہیں۔
اک پائوں رانا رشید کے دوکان سے تختے رکھے نوائے وقت اخبار کا اک صفحہ انہماک سے پڑھنے میں صدیقی مشغول ہوتے۔یہ تقریباََ ہر روز کا معمول تھا کہ یونیورسٹی یا ایوب ریسرچ جانے کے لئے صبح جب بھی گھر سے نکلتا صدیقی کو اخبار پڑھتے دیکھتا۔ صدیقی قریبی گائوں ڈھلوان سے ہر روز فیصل آباد جانے کے لئے آتے اپنی بائیسائیکل رانا کی دوکان کے سانے کھڑی کرتے اور نوائے وقت کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد اسٹیشن کی جانب جاتے ۔صبح کی ٹرین اکثری لیٹ ہوتی جہاں اس لیٹ کی کوفت ہوتی ۔وہیں پہ مل بیٹھنے کا بہانہ بھی ہوتا زیادہ تر لوگ اپنے مخصو ص گروپوں میں اکٹھے ہو جاتے کوئی گروپ اسٹیشن پر گپیں لگاتا کوئی کسی حجام کی دوکان پہ بیٹھ جاتا۔ ہم لوگ عام طور پہ اللہ رکھے کی مٹھائی کی دوکان پہ اکٹھے ہو جاتے۔ اکثر چائے پیتے ساتھ میں کچھ مٹھائی وغیرہ اور خوب ہنسی مذاق ہوتا۔ اکرم کی موجودگی میں سنجیدگی کا دخل ہو ہی نہیں سکتا۔ کبھی بائو مبارک کو چھیڑ دیا تو کبھی شیخ اکے کو وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوتا۔
لیکن وقت گذاری کا مقابلہ کوئی تاش گروپوں سے نہیں کر سکتا ۔ کئی گروپ تاش کی ٹو لیوں میں مختلف جگہوں پہ بیٹھ جاتے اور اس قدر مگن ہو جاتے کہ کئی دفعہ ٹرین بمشکل چڑھتے او ر ٹرین میں بھی تاش کھیلنے کی جگہ ڈھونڈ لیتے ٹرین کتنی بھی لیٹ ہو جاتی یہ لوگ مگن رہتے۔مگر صدیقی کی وقت گذاری سب سے مختلف تھی
رانا رشید کی دوکان سے نوائے وقت کھنکالنے کے بعد آپ طفیل کے گرم حمام تشریف لے جاتے اور وہاں جنگ اخبار کا مطالعہ شروع ہو جاتا۔ جنگ کے اشتہارات اور اندرونی صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ سینڈو موچی کے تختے پہ چلے جاتے اور وہاں روزنامہ پاکستان آپ کا منتظر ہوتا ۔اس کے سیر حاصل مطالعہ کے دوران ہی اکثر ٹرین آ جاتی وگرنہ آپ ذرا آگے تشریف لے جاتے اور بوٹے سبزی والے کی دوکان پہ روزنامہ خبریں آپ کا منتظر ہوتا۔
اکثر دیکھا کہ ٹرین کے آنے کے بعد بھی صدیقی صاحب اخبار بینی میں غرق ہوتے کسی کے جھنجھوڑنے پر اکثر بڑبڑا کر بھاگتے ہوئے ٹرین پکڑتے۔کئی دفعہ اتفاق ہوا کہ صدیقی صاحب بھی ٹرین کے اُسی کمپارٹمنٹ میں سوار ہوتے جہاں ہم ہوتے ۔صدیقی صاحب ٹرین میں سوار ہوتے ہی معاینہ فرماتے کہ کمپارٹمنٹ میں کس سواری کے پاس اخبار ہے اور پھر آہستہ آہستہ جگہ بناتے لوگوں کے درمیان سے اُن کی بڑبڑا سنتے ہوئے بالآخر اخبار والی سواری کے قرب جا پہنچتے اور کھڑے کھڑے جو صفحہ سامنے ہوتا اس میں غرق ہو جاتے اور پھر باقی خبر اگلے صفحے کے بہانے اخبار کے اوپر اس قدر جھک جاتے کہ مالک کوئی ایک آدھ صفحہ ان کے حوالے کر دیتا ۔اخبار ویسے بھی جب تک دوسرے کے پاس ہوتی ہے کئی گنا دلچسپ ہوتی ہے۔ اخبار والی سواری کی دلچسپی اخبار میں کم ہو چکی ہوتی اور وہ اکثر پوری اخبار صدیقی صاحب کے حوالے کر دیتا اگر ٹرین راستے میں کہیں زیادہ دیرکے لیے رک جاتی تو صدیقی صاحب اخبار ختم کر کے کوئی اور اخبار والی سواری کے متلاشی ہو جاتے اور پھر رش اور لوگوں کی ناگواری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نئی منزل کی طرف سفر شروع کر دیتے اور اکثر کامیاب رہتے ۔اگرچہ صدیقی صاحب کو کبھی اخبار خریدتے نہیں دیکھا مگر جب وہ ٹرین سے اترتے تو اکثر ان کے ہاتھ میں اخبار ہوتا
دوپہر کو جب واپسی ہوتی تو اس وقت صدیقی صاحب اسٹیشن کی بک شاپ پہ ہمیشہ موجود ہوتے اور اخبار بینی میں غرق حتیٰ کہ ٹرین چلنے کا سگنل ہو جاتا۔ جھمرہ واپس پہنچنے پر دوپہر کی اخبار کا وقت ہو جاتا اور صدیقی صاحب پہلے اسٹیشن کے قریب جمیل نائی کے حمام میں ڈیلی رپورٹ کا تفصیلی مطالعہ کر تے، پھر واپس گھر جانے کے لئے اپنی سائیکل کے حصول کے لئے ہمارے گھر کے عین سامنے رانا رشید کے پاس پہنچ جاتے۔ رانا صاحب نے بھی دوپہر کا اخبار ’’عوام‘‘ لگوایا ہوا تھا گھر جانے سے پہلے عوام کا مطالعہ بھی روز مرہ کا معمول تھا ۔
ایک دن میں کسی کام کے سلسلہ میں کمشنر آفس گیا تو مجھے متعلقہ آفیسر نے درخواست پہ نمبر لگوانے کے لئے ساتھ والے کمرے میں بھیجا۔ ڈاک کلرک ٹانگیں میز پر رکھے اخبار میں چھپا بیٹھا تھا میرے دو تین بار آواز دینے پہ موصوف نے چہرے سے اخبار ہٹائی تو موصوف صدیقی صاحب تھے۔