Entertainment

عید منائی سادگی سے

عید منایٔ سادگی سے اس دفعہ عید والے دن پھر ہوا یوںکہ جیسے ہی دروازے کی گھنٹی بجی، ہم بھاگ کر پرانے کپڑے اتار کر نئے پہن کر باہر تشریف لے گئے اور باہر جاکر پتا چلتا ہے کہ جمعدار عیدی لینے تشریف لائے ہیں۔
دَھت تیرے کی، کیا ضرورت تھی کپڑے تبدیل کرنے کی۔ پھر سے لانگ نیکر اور پرانی سی ٹی شرٹ پہن کر ابھی بیڈ پر نیم دراز ہوئے ہی تھے کہ پھر دروازے کی گھنٹی بجی۔ سوچا کہ کوئی مانگنے والا ہی ہوگا۔ ایسے ہی باہر نکلے تو ہمسائے ڈاکٹر صاحب عید ملنے کھڑے تھے، شرمندگی سے عید ملے۔
مڈل کلاس کی عادات میں نئے کپڑے صرف باہر وہ بھی کسی خاص جگہ جانے کے لئے پہنے جاتے ہیں۔ گھر تو وہی لنگوٹی ہی ہوتی ہے، جوکبھی چار خانہ دھوتی اور بنیان پہ مشتمل ہوا کرتی تھی جو شلوار کرتا سے تبدیل ہوتے ہوۓ پاجامہ شرت اور بالآخر برمودا (لمبی نیکر) اور ٹی شرٹ کی شکل میں پوری دنیا میں رواج پا چکی ہے۔ عید پر ساران دن یہی ہوتا ہے کبھی نئے کپڑےپہنو جب مہمان آئیں یا باہر جانا ہو اور واپس گھر میں وہی پرانے۔ زیادہ بری اس وقت ہوتی جب مہمان آپ کو کپڑے بدلنے کی مہلت دیئے بغیر آدھمکے۔
عید والے دن ہم نئے کپڑوں میں اَکڑوں صوفے پر بیٹھے اخبار کا مطالعہ کررہے تھے( اَکڑوں اس لئے کہ ٹیک لگانے سے کاٹن کے کپڑوں پر سلوٹیں نہ پڑجائیں) کہ بیگم صاحبہ کی آواز آئی کہ ”سوشل میڈیا پہ تو بڑی پوسٹیں لگاتے ہیں کہ بڑا گھر میں کام کرتے ہیں اور یہاں اب صاحب بن کربیٹھے ہوۓ ہیں ۔ کچھ ہاتھ بھی بٹائیں گے شام کو مہمانوں نے آنا ہے“ہم حسب معمول و عادات و مجبوری و سعادت مندی فوراً نیکر اور گھسی سی ٹی شرٹ پہن کر کچن میں پیش ہوگئے ۔ بیگم صاحبہ کی ہنسی چھوٹ گئی اور بولیں”کیا واہیات کپڑے پہن کر آئے ہیں عید ہے کوئی آہی جاتا ہے“ بیگم نے کسٹرڈ کے لئے پھل کٹوایا۔ کچن میں گرمی تھی پسینہ بھی خوب آیا۔ ایک ہاتھ میں چھری اور ایک میں کیلے پکڑے لاﺅنج میں جاپہنچے کہ وہاں پنکھے کے نیچے بیٹھ کرباقی پھل کاٹتے ہیں ۔ لاﺅنج میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ہمسائی ہمراہ دوعدد جوان بیٹیوں کے بیگم کو عید ملنے کو موجود اور ہمارا حلیہ دیکھ کر ان کی ہنسی چھوٹ گیٔ⁠، سو دیکھتے ہی اُلٹے پاﺅں یوں بھاگے کہ کیلے فرش پہ جا گرے۔
مگراِس دفعہ توسادگی سے منانا مجبوری ہے وگرنہ عید اہتمام سے منانی چاہیے کیونکہ خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ مگر آج تک سمجھ نہیں آیٔ کہ خوش کیسے ہوں۔ سارا دن عید مبارک ،عید مبارک کہہ کر بتیسی نکال کر ایک دوسرے کو اور خود کو احساس دلاتے ہیں کہ عید ہے اور خوش ہونا چاہیے۔ جب بھولنے لگتے ہیں تو کوئی فون کال یا موبائل میسج عید مبارک کا پھر یاد کرادیتا ہے کہ سنجیدہ نہیں ہونا عیدکا موقع ہے خوش رہناہے۔عام دنوں میں زیادہ خوش ہونے کو ہمارے ہاں غالبا ًگناہ ہی سمجھا جاتا ہے اور مولوی حضرات نے ہر خوشی کو گنا ہ ہی بنا دیا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کا کہنا ہے کہ زندگی اور موت میں کوئی خاص فرق نہیں، بالخصوص ایشیا میں۔ ہماری خوشی بھی ایسی ہے کہ خود کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ ہم تو خوش ہیں۔
پہلے پہل ہم سمجھے کہ سارا مہینہ روزے رکھ رکھ کر اورنمازیں پڑھ پڑھ کر اب ”عید“ یعنی خوشی محسوس کرنی ہے کہ پورا مہینہ کامیابی سے روزے رکھے۔ مہینہ بھر کافی نمازیں پڑھ لیں ہیں اب عید کے تین دن نماز وغیرہ کی چھٹی ہو گی ۔مگرعام دنوں میں 5 نمازیں اور عید والے دن نماز کی کوئی چھٹی نہیں بلکہ عید کی ایک زائد نماز بھی پڑھنی پڑتی ہے۔ اب بند ہ سوچتا ہے کہ آج عید ہے رَج کے سوتے ہیں دیر سے اُٹھتے ہیں مگر صاحب پہلے فجر کے لئے 4 بجے پھر7 بجے عید کی نماز۔ اس سے زیادہ تو عام چھٹی کے دن بندہ دَس گیارہ بجے تک سولیتا ہے۔چاند رات بھی عید کی خوشی شاپنگ کی شکل میں خود پہ طاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کچھ بزرگ تو فرماتے ہیں کہ چاند رات مہندی شاپنگ کے لئے نہیں ہوتی اگر یہ طا ق رات ہے تولیلتہ القدر ہو سکتی ہے وگرنہ ہر چاند رات لیلتہ ا لعید ہوتی ہے یعنی رات بھر عبادت کریں پھردن کو خوش رہنے کی کوشش کریں۔ جیسے کسی کو ستوپلاکر کہیں کہ پیزا کا مزہ محسوس کرو۔
اگر دیکھا جائے تو کیا واقعی ہم عید کیا خوشی سے مناتے ہیں؟ اگر اسی کو خوشی سے منانا کہتے ہیں تو ہم بچپن سے ایسے ہی بھرپور اور شاندار عید مناتے چلے آئے ہیں۔ویسے پہلے کون ساہم عید کے دن وَن ویلنگ کرتے تھے یا رنگ برنگی پینٹ پہنتے تھے؟
عام دنوں میں تو پھر کبھی فیملی کے ساتھ ہوٹل بھی کھانا کھانے چلے جاتے ہیں مگر عید پر ایک تو ہوٹل بند اور پھر اگر رات کو آئس کریم کا موڈ بن جائے تو رَش سے پریشان ہوکر واپس آجاتے ہیں۔
اس دفعہ تو حکومتی حکم صادر ہوگیاہے کہ سادگی سے عید منائی جائے توہم پریشان ہیں کہ کس طرح سادگی سے منائیں اور جو ہم عید پر عیاشیاں کیا کرتے تھے وہ اس دفعہ نہ کریں۔ اسکی وضاحت حکومت نے نہیں کی۔ چلیں خود ہی کوئی حساب لگاتے ہیں اور احباب سے رہنمائی چاہتے ہیں۔عموماً عید پر عام دنوں کے مقابلے میں کچھ کام اضافی کرنے پڑتے ہیں جو شائد اس دفعہ سادگی کی وجہ سے نہیں کررہے۔قارئین سے التماس ہے کہ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم اب باقی کے ۲ دن ایسا کیا کریں کہ عید سادگی سے منائی جاسکے ۔ اگر پہلے ہی ہم عید کو سادگی سے مناتے ہیں تو مزید سادگی سے کیسے منایٔں۔ مزید براں یہ بھی رہنمایٔ فرمایٔں کہ خوشی سے یا بھرپور طریقے سے کیسے منایٔ جاسکتی ہے (مثلا میک اپ، موٹر سایٔکل پہ ون ویلینگ، گٹار یا ڈھول بجا کر یا کچھ اور)، تاکہ ہم آئندہ بھی پہلے سے ان چیزوں کا اہتمام کرسکیں۔